اس ترجمہ کے بارے میں . . .
اس ترجمہ میں ہم جو طریقہ اپنائے ہیں اسے جان لینااس کے پڑھنے والوں کے لئے فائدہ مند ہوگا۔
* چندعربی لفظوں کو عربی لفظ ہی استعمال کیا گیاہے۔اس لئے کہ اس لفظ کی پوری مدعا کو کوئی دوسرالفظ ادا نہیں کرسکا۔
چند آیتیں ہیں جن کو اور زیادہ تفصیل کی ضرورت ہوگی۔
چند آیتوں کا جملہ مقصد کیا ہے، اس میں شک پیدا ہوسکتا ہے۔
مستقبل میں واقع ہو نے والے پیشگوئیاں چند آیتوں میں جگہ پائی ہوگی۔
چند آیتوں میں سائنسی معانی سمائی ہوگی۔
یہ سمجھنے کے باوجود کہ یہ آیت کیا کہتی ہے، کچھ لوگوں کا خیال ہو گا کہ یہ اس زمانے کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے۔
ایک آیت جومعانی ظاہر کر تی ہے اس کے سوا بھی اور زیادہ منشا اس میں شامل ہوسکتا ہے۔
اس طرح کے تمام مقامات پر ہم نے ایک چھوٹاسا نمبر کانشان لگایا ہے۔ معانی کے اوپر اگر12کا ہندسہ دکھائی دے تو سمجھ لو کہ اس کی اور بھی تفصیل موجود ہے۔ تفصیلات کے فہرست میں12 کے ہندسے میں اسے تم دیکھ سکتے ہو۔
تفصیلات کو بار بار کہنے سے اجتناب کر نے میں ہم نے بہت غورفرمایاہے۔
مثال کے طور پرآسمان یا آسمانوں کے بارے میں قرآن بہت سی مقامات پر ذکر کیا ہے۔ ان تمام مقامات پر ہم نے ایک خاص نمبر 507ہی درج کیا ہے۔
اس ترجمہ میں ہم بہت ہی مختصرانداز کو اپنایا ہے۔یہ کئی طریقوں سے ترکیب پائی ہے۔
ایک آدمی جب ہاتھوں کو، پیروں کو،چہرے کو اور سر کو دھوتا ہے تو اس کو عربی زبان میں اس طرح کہا جائے گا کہ وہ اپنے ہاتھوں کو، اپنے پیروں کو، اپنے چہروں کو اور اپنے سر کو دھو یا۔ اس طرح کہنا عربی زبان کا بہترین انداز ہوگا۔ وہی انداز اس زبان میں کیا جائے تو وہ بہتر نہیں کہا جائے گا۔
اپنے ہاتھوں کو، پیروں کو،چہرے کو اور سر کو دھویا کہنا ہی اس زبان کا بہتر انداز بیان کہلائے گا۔
’اپنا‘ کا لفظ عربی متن میں چار جگہوں میں استعمال کیا گیا ہے۔لیکن اس کو ایک بار استعمال کر ناہی اس زبان کیلئے کافی ہے۔
’اس کا‘ ’اس کی‘ ’ان کا‘ اور ’ان لوگوں کا‘ ایسے الفاظ ایک جملے میں کئی بار استعمال ہو نے کے باوجود اس ترجمہ میں ہم نے اس کو اکثر ایک ہی بار ذکر کیا ہے۔
عربی زبان میں’جنہوں نے تمہیں مارا انہیں تم بھی مارو‘ جیسے انداز میں کئی اصطلاحات عام طور سے استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ اس زبان میں اچھے انداز کی نشانی ہے۔ لیکن ان جیسی اصطلاحات اس زبان میں بہت ہی کم استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے اس زبان میں اس کو’تمہیں مارنے والوں کو تم بھی مارو‘ کہنا ہی اس زبان کا انداز بیان ہوگا۔
ان کی اصطلاحات میں’جنہوں نے تمہیں دھوکہ دیا وہ‘ ہوگا، لیکن ہماری اصطلاحات میں ’تمہیں دھوکہ دینے والوں کو‘ کہنا ہی کافی ہوگا۔
بہت کم مقامات پر اس انداز بیان سے ایک گہرا مطلب نکلے گا، ویسی جگہوں میں وہی انداز بیان ہم نے بھی اختیا رکی ہے۔
جہاں تک ہو سکے بہت کم حروف ہی جگہ پائے، اس انداز سے ہم نے لفظوں کو استعمال کی ہے۔
مثال کے طور پر تین لفظوں میں کہنے والی بات کو ہم نے ایک لفظ میں کہنے کی کوشش کی ہے۔ ]
معمول معنی سے الگ دوسرے معنوں میں استعمال کئے ہوئے چیزوں کو سمجھانے کے لئے یہ نہیں استعمال کیا گیا کہ اعتبار کرنااور اعتبار نہ کر نا ، بلکہ ہم نے اعتبار کرو اور اعتبار نہ کرو کا لفظ استعمال کیا ہے۔
’کر نے کے قابل ہیں ، آنے کے قابل ہیں‘ جیسے لفظوں کو اکثر نظر انداز کرکے’ کر نے والے، آنے والے‘ استعمال کیا ہے۔
عربی زبان میں ایک رائے بغیر کسی شک کے پیش کر نا ہو تو ’اِنَّ‘ یا ’اَنَّ‘ کا لفظ استعمال کر تے ہیں۔ اسے بہت سے مترجم ’بے شک‘ کا معانی دیتے ہیں۔ یہ زبان کے انداز سے فضول ہے۔ عربی زبان میں ایک بات کو مثبت انداز میں کہنے کے لئے صرف ’اِنَّ‘ یا ’اَنَّ‘ کا لفظ ہی نہیں بلکہ اور بھی کئی الفاظ ہیں۔ ’اِنَّ‘ یا ’اَنَّ‘ کا لفظ جیسے ثابت کر نے کے لئے موجود ہے اسی معنے کو وہ بھی دیتے ہیں۔ ایسے لفظوں کو تاکیدی لفظ کہاجاتا ہے۔ ایک جملے میں ایک خبر میں پانچ چھ تاکیدی لفظوں کو بھی عرب والے استعمال کر تے ہیں۔
’کل میں شفا خانہ گیا تھا‘ اس جملے کو وہ لوگ ’بے شک میں بے شک کل بے شک شفا خانہ بے شک گیا تھا‘ کہیں گے۔
یہ عربی زبان میں عیب دار نہیں دکھے گا۔ اگر وہی انداز سے ہم لکھیں تو پڑھنے والے قرآن کے انداز بیان کو عیب لگا ئیں گے۔ وہ یہ نہیں سمجھیں گے کہ یہ عربی زبان کا دستور ہے۔
ہم اس سے جان لے سکتے ہیں کہ تاکید والے حروف کوعرب والے آرائش کے انداز میں استعمال کر تے ہیں۔
اسی لئے ہم نے ’اِنَّ‘ یا ’اَنَّ‘ کے لفظ کااور تاکید والے دوسرے الفاظ کا بھی ترجمہ نہیں کیا۔ بعض مسلمان عالم ہم پر الزام لگا تے ہیں کہ یہ غلط ہے۔
اس طرح الزام لگانے والے اپنے ترجموں میں سارے تاکیدی لفظوں کو ’بے شک‘ سے ترجمہ کر نا چاہئے تھا ۔صرف ’اِنَّ‘ یا ’اَنَّ‘ کے لفظ کو بے شک سے ترجمہ کر دیا اور اسی قسم کے دوسرے لفظوں کا ترجمہ چھوڑ دیا۔
اس کے چند مثالیں ہم پیش کر تے ہیں۔
بیسویں سورت کی 97 ویں آیت کو لے لیں۔
اس کو ہم نے اس طرح ترجمہ کیا تھا:
موسیٰ نے کہا کہ تو چلا۔ تیری زندگی میں یہ حالت ہو گی کہ تم کہو گے کہ مجھے مت چھونا۔ تبدیل نہ ہو نے والا ، وعدے کے مطابق آنے والا ایک وقت بھی تیرے لئے ہے۔ تم جس کی پرستش کر رہے تھے اس معبود کو دیکھ۔ اسے آگ میں جلا کر پھر اس کو سمندر میں بکھیر دیں گے۔
ہمارے ترجمے کے خلاف آواز اٹھا نے والوں کا ترجمہ اس طرح ہی آنا چاہئے تھا۔
موسیٰ نے کہ تو چلا جا۔ بے شک تیری زندگی میں یہ حالت ہو گی کہ تم کہو گے کہ مجھے مت چھونا۔ بے شک تبدیل نہ ہونے والا ، وعدے کے مطابق آنے والا ایک وقت بے شک تیرے لئے ہے۔ تم جس کی پرستش کر رہے تھے اس معبود کو دیکھ۔اسے بے شک آگ میں بے شک جلا کر پھر بے شک اسے سمندر میں بے شک بکھیر دیں گے۔
بیسویں سورت کی 97 ویں آیت میں سات جگہوں میں بے شک کا معانی دینے والے الفاظ ہیں۔تم دیکھو کہ کسی بھی عالم کے ترجمہ میں اس آیت کے تحت بے شک کا لفظ کیا سات بار استعمال ہوا ہے؟ کوئی بھی مترجم بے شک کے لفظ کوسات بار استعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ یقین ہو جا تا ہے کہ وہ لوگ بھی تاکید قسم کے لفظ کو بغیر معنی کے چھوڑد ئے ہیں۔
اسی طرح 3:155 کے آیت کو لے لیجئے۔ اس آیت کو ہم نے اس طرح ترجمہ کیا ہے:
جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تم میں سے پھر جانے والوں کو ان کے بعض کرتوتوں کی وجہ سے شیطان نے گمراہ کردیا۔ پھر اللہ نے انہیں معاف کردیا۔اللہ بخشنے والا تحمل والا ہے۔
اس آیت میں تاکید ثابت کر نے والے الفاظ پانچ ہیں۔اِنَّ کا معنا ہم نے نہیں لیا ، اس وجہ سے ہمارے خلاف لڑنے والے لوگ پانچ جگہوں میں بے شک کا لفظ استعمال کر کے اس آیت کو اس طرح ترجمہ کر نا چاہئے تھا۔ یعنی:
جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تم میں بیشک پھر جانے والوں کو ان کے بعض کرتوتوں کی وجہ سے بے شک شیطان نے گمراہ کر دیا۔ بے شک اللہ بے شک انہیں معاف کردیا۔ بیشک اللہ بخشنے والا، تحمل والا ہے۔
اس طرح بے شک کا لفظ پانچ جگہوں میں ایک عالم بھی اپنے ترجمے میں استعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ انہوں نے بھی تاکید کے الفاظ کو بغیر معانی کے چھوڑدیاہے۔
ذیل کی آیتوں کو دیکھئے۔ہم نے یہ تفصیل پیش کی ہے کہ ان آیتوں میں تاکیدی الفاظ کتنی جگہوں میں آیا ہے ۔ کسی بھی ترجمے کو اٹھا کر دیکھئے ، تم خود جان لوگے کہ وہ لوگ اس گنتی کے موافق بیشک کا لفظ استعمال نہیں کئے ہوں گے۔
2:74 اس آیت میں چھ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
2:130 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
5:12 اس آیت میں نو بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
5:32 اس آیت میں چھ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
6:109 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
7:134 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
11:10 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
11:110 اس آیت میں پانچ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
12:32 اس آیت میں سات بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
12:41 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
14:7 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
15:24 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
15:97 اس آیت میں تین بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
16:103 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
23:30 اس آیت میں چار بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
29:3 اس آیت میں چھ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
30:58 اس آیت میں پانچ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
39:65 اس آیت میں چھ بار تاکیدی الفاظ آئے ہیں۔
تم جان لو گے کہ ان آیتوں میں کوئی بھی مترجم بے شک کا لفظ اس گنتی کے مطابق استعمال نہیں کیا ہوگا۔
صرف مثال ہی کے لئے ہم نے چند آیتیں پیش کی ہیں۔ اس طرح کے اور بھی کئی آیتیں موجود ہیں۔
یقینی اندازکے تاکیدی الفاظ تمام ثابت کر نے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے صرف اِنَّ اور اَنَّ کے لفظ ہی کو بے شک کا معانی پہنا کر باقی الفاظ کو معانی دئے بغیر چھوڑدینا کچھ معانی نہیں رکھتا۔
بے شک کا لفظ عربی زبان میں آرائش کے لئے استعمال کیا جا تا ہے اور ہماری زبان میں اس طرح کا انداز بیان نہیں ہے، اس لئے ہم نے اس کو استعمال نہیں کیا۔ لیکن اسی طرح ترجمہ کر نا چاہئے کا عقیدہ رکھنے والے بعض کاترجمہ کر تے ہیں اور بعض کا ترجمہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس اس کے لئے کوئی مناسب جواب بھی نہیں ہے۔
مخاطب کر نے والے چند آیتوں میں ہم نے اے محمد! کو قوسی نشان کے اندر استعمال کیا ہے۔قرآن میں جواحکامی لفظ استعمال کیا گیا ہے، وہ اکثرعمومی ہے۔ وہ صرف نبی کریم ؐ ہی کے لئے نہ رہنے کے باوجود چند احکامی الفاظ صرف نبی کریم ؐ ہی کے لئے مخصوص ہیں۔ ان جیسی آیتوں میں قوسی نشان کے اندر اے محمد!استعمال کیا گیا ہے۔
بعض لوگ سمجھیں گے کہ اے محمد! سے مخاطب کر نا کیا بے حرمتی نہیں ہے؟ اگر ہم نبی کریمؐ کو اے محمد!سے مخاطب کریں تو وہ بے حرمتی ہو سکتی ہے۔ لیکن سارے جہانوں کا رب، اللہ جب اس طرح مخاطب کرے تو وہ بے حرمتی نہیں ہوسکتی۔ ایسے ہی آیتوں میں ہم نے اے محمد! استعمال کی ہے جس میں اللہ نے نبی کریمؐ سے مخاطب ہو کر کہاہے۔ اس میں کسی طرح کی بے حرمتی نہیں ہے۔
اس ترجمے میں ہم نے جہاں تک ہو سکے قوسی نشانی ترک کر نے کی کوشش کی ہے۔ تاہم بہت کم جگہوں میں قوسی نشانی استعمال کیا گیا ہے۔یہ سمجھ لیں کہ جو کچھ قوسی نشانی کے اندر موجودہے وہ اصل میں نہیں ہے، اس کو مترجم نے شامل کیا ہے۔
جہاں تک ہو سکے ہم نے ترجمہ میں درست اور باضابطگی کو اپنا یا ہے۔
مثال کے طور پرلفظِ ’علیم‘ کا ترجمہ ایک جگہ میں جاننے والا کیا گیا ہے تو وہ لفظ جہاں بھی آئے وہی جاننے والاہی لکھا گیا ہے۔ اس طرح ہر الفاظ کے لئے باقاعدگی کو اپنایا ہے۔
چند الفاظ ایک سے زیادہ معانی والا ہوگا۔ وہ جہاں استعمال ہو تا ہے اسی کے مطابق معانی بدل دیا گیا ہے۔ صرف ایسی ہی جگہوں میں ہم نے اس باقاعدگی کو استعمال نہیں کیا۔
حاشیہ کو اسی صفحات میں اگر ہم درج کئے ہو تے توکئی جگہوں میں ایک ہی حاشیہ کو استعمال کر نے کی نوبت آجاتی۔ اس سے صفحات اور بھی بڑھ جاتے۔ اس سے اجتناب کر نے کے لئے ہی ہم نے حاشیہ کو الگ کر کے آخر میں شامل کیاہے۔