ٹہرنے کی علامات

قرآن مجید میں ہر ایک آیت کے اختتام میں اور درمیان میں چندعلامتوں کے ساتھ اب شائع کیا جا رہا ہے۔’

 اصلی نسخہ جو آج تک محفوظ ہے ، اس میں ایسی کوئی علامات موجود نہیں ہے۔

* ان جگہوں میں ٹہرنا ضروری ہے۔

* ان جگہوں میں ٹہرنا بہتر ہے۔

* ان جگہوں میں ٹہرے بغیر متواتر پڑھنا بہتر ہے۔

* ان جگہوں میں ٹہرنا اور نہ ٹہرنا برابر ہے۔

* ان جگہوں میں نبی کریم ؐ نے ٹہرکر پڑھا ہے۔

* ان جگہوں میں جبرئیل نے ٹہر کر پڑھا ہے۔

اس کو سمجھانے کے لئے چند علامات درج کئے ہیں۔ ان علامات کو کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ سب بناوٹی ہیں۔

اسی طرح کل قرآن میں کہیں جیم، کہیں ثا، کہیں واؤ، کہیں میم، کہیں کاف، کہیں لام الف، کہیں صاد، کہیں صاد لام یا، اس طرح کے علامات بیچ بیچ میں داخل کئے ہو ئے ہیں۔

نبی کریم ؐ نے ہر آیت کو ٹہر ٹہر کرپڑھتے تھے، اسی کی دلیل موجود ہے۔ اس کے سوا ان لوگوں کی درج شدہ کوئی علامات اور اس کے سلسلہ میں جو انہوں نے قانون نافذ کیا ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہر شخص اپنی چاہت کے مطابق کسی بھی جگہ ٹہراکر پڑھ سکتا ہے۔

ان جیسی علامات کو اگر درج نہ کئے ہو تے تو قرآن مجید اور بھی مخصوص انداز سے نکھر گیا ہوتا۔

مثال کے طور پر تیسری سورت کی94ویں آیت کے کنارے پرشائع کیا گیا ہے کہ اس جگہ پر جبرئیل نے ٹہر کر پڑھاہے۔اس کی کوئی دلیل کسی کتاب میں موجود نہیں ہے کہ اس جگہ پر جبرئیل نے ٹہرایا تھا۔

بغیر کسی دلیل کے ہر شخص اپنے خیال کے مطابق کناروں پر لکھ چھوڑا ہے۔ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ وہی بعد کے زمانے میں طبع ہو کر کتابی شکل اختیار کیا ہواہے۔