حرفی غلطیاں
قرآن مجید کے بارے میں ایک اور بات جان لینا ضروری ہے۔
عثمانؓ کے ذریعے قرآن مجید کے کئی نسخے لکھے گئے۔ اس میں کاتبوں نے بعض جگہوں میں بھول چوک سے چند غلطیاں کی ہیں۔
اس طرح غلطیاں رہنے کے باوجود حفظ کر نے والوں کے دلوں میں اصل بحفاظت رہنے کی وجہ سے اسی کو پیمائش گردان کر عالمی مسلم سماج کتابت کی ان غلطیوں کو نظرانداز کر دیا ہے۔
کیونکہ غلط کتابت کا نسخہ ایک شخص کے پاس ہو اور دوسرے کے پاس صحیح کیا ہوا نسخہ ہو تو ایسا دکھائی دے گا کہ قرآن مجید میں ناموافقت ہے۔
ان میں سے بعض غلطیوں کے بارے میں ہم بتا رہے ہیں:
* قرآن مجید بھر میں ’’للذین‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ لیکن آیت نمبر 70:36 میں غلطی سے الف بڑھا دیا گیا ہے۔
* آیت نمبر 21:88 میں لفظ ’’ننجی‘‘ کو ’نجی‘ لکھا گیا ہے۔ بعد کے زمانے والے اس میں ’ن‘ ملا دیا ہے تاکہ اس کو لوگ اسی طرح نہ پڑھنے لگ جائیں۔
* لفظ ’’افئن‘‘ آیت نمبر 3:144 اور 21:34 میں غلطی سے ’’افائن‘‘ لکھا گیا ہے۔ لیکن اس کو ’’افئن‘ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 3:158 کی ’’لا الی اللہ‘‘ میں لا کوکھینچ کر لکھا گیا ہے، بلکہ اس کو ’’لا میں الف کے بغیر لَاِالی اللہ ‘‘ کہہ کر پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 37:68 میں ’’لا الی الجحیم‘‘ غلط لکھا گیا ہے، اس کو ’’لَاِالی الجحیم‘‘ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 5:29 میں ’’تبوآ‘‘ کہہ کر لمبا کیا گیا ہے، اس کو تبواَ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 7:103، 10:75، 11:97، 23:46، 28:32، 43:46 میں غلطی سے ملاۂ لکھا گیا ہے، اس کو ملۂ ہی پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 9:47 میں غلطی سے ولا اوضعولکھا گیا ہے، اس کو ولاوضعولکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 7:73، 11:61، 17:59، 27:45، 51:43 ان آیتوں میں لفظ ’’ثمود‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔
لیکن آیت نمبر 11:68 میں یہ لفظ دو بار آتا ہے، اس میں ایک جگہ میں غلطی سے ’’ثمودا‘‘لکھا گیا ہے۔ اس کو ثمود ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* لفظ شءٍی ہر جگہ ٹھیک سے لکھا گیا ہے ، لیکن آیت نمبر 18:23 میں غلطی سے شاءٍی لکھا گیا ہے۔اس کوشءٍی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 18:14 میں ’’ندعوَ‘‘ لکھنے کے بجائے غلطی سے ندعوا لکھ دیاگیا ہے، اس کو ندعوَ ہی پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
* آیت نمبر18:38 میں لفظ لٰکن کو غلطی سے لٰکنا لکھ دیا گیا ہے۔ اس کو لٰکن ہی پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 13:30 میں غلطی سے ’’لتتلوا‘‘ لکھا گیا ہے، اس کو ’’لتتلوَ‘‘ ہی پڑھنا اور لکھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 27:21 میں غلطی سے ’’لا اذبحنہ‘‘ لکھا گیا ہے، اس کو ’’لَاَذبحنہ‘‘ لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 47:4 میں غلطی سے ’’لیبلوا‘‘ لکھا گیا ہے، اس کو ’’لیبلوَ‘‘ لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 59:13 میں غلطی سے ’’لا انتم‘‘ لکھا گیا ہے، اس کو ’’لانتم‘‘ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* 76:16، 27:44 ان آیتوں میں لفظ ’’قواریر‘‘ ٹھیک سے لکھاگیا ہے، لیکن آیت نمبر 76:15 میں غلطی سے ’’قواریرا‘‘ لکھا گیا ہے، اس کوقواریر ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 76:4 میں لفظ’’ سلٰسلا ‘‘ غلطی سے لکھا گیا ہے۔ اس کو ’’سلٰسلَ‘‘ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* آیت نمبر 47:31 میں غلطی سے ’’نبلوا‘‘ لکھا ہو اہے۔ اس کو ’’نبلوَ‘‘ ہی لکھنا اور پڑھنا چاہئے۔
* 15:78، 50:14 آیتوں میں ’’الایکۃ‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ لیکن 26:176، 38:13 آیتوں میں غلطی سے الف چھوٹ گیاہے۔
* آیت نمبر 4:12، 7:190، 39:29 میں ’’شرکاء‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے، لیکن آیت نمبر 6:94، 42:21 میں آخر میں ایک الف غلطی سے لکھ دیا گیا ہے۔ اور لفظ واؤ بھی اس میں غلطی سے درج کیا گیا ہے۔
* آیت نمبر 2:266 میں لفظ ’’ضعفاء‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ مگر آیت نمبر 14:21، 40:47 کے آخر میں غلطی سے الف بڑھا دیا گیا ہے اور لفظ واؤ بھی غلطی سے ملا دیا گیا ہے۔
* 6:67، 28:3، 76:2 آیتوں میں لفظ ’’نَبَاٍ‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے، مگر آیت نمبر 6:34 کے آخر میں غلطی سے’ ی‘ کا حرف جمع دیا گیا ہے۔
* 2:101، 11:71، 33:53 آیتوں میں لفظ ’’وراء‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ مگر آیت نمبر 42:51 کے آخر میں ’ی‘ کو غلطی سے جمع کر دیا گیا ہے۔
* آیت نمبر 8:31 اور 6:83 میں لفظ ’’نشاء‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے، مگر آیت نمبر 11:87 کے آخر میں غلطی سے الف کا حرف بڑھا دیا گیا ہے۔
* آیت نمبر 13:26، 17:30، 28:82، 29:62، 30:37، 34:36، 34:39، 39:52، 42:12، ان آیتوں میں لفظ ’’یبسط‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ لیکن آیت نمبر 2:245 میں غلطی سے اس کو ’’یبصط‘‘ لکھا گیا ہے۔ سین کے بجائے صاد لکھا گیا ہے۔ صاد کے لفظ پر ایک چھوٹا سا سین لکھ کر نشان کیا گیا ہے۔
* آیت نمبر 2:247 میں لفظ ’’بسطۃ‘‘ ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ لیکن آیت نمبر 7:69 میں غلطی سے ’’بصطۃ‘‘ لکھا ہوا ہے۔ بسطۃ کی سین لکھنے کے بجائیبصطۃمیں صاد لکھ دیا گیا ہے۔ دونوں میں ایک ہی تلفظ رہنے کی وجہ سے شاید غلطی سے لکھ دئے ہوں گے۔
اس طرح کے چند چھوٹے چھوٹے غلطیوں کے سوا باقی تمام اصل نسخہ میں ٹھیک سے لکھا گیا ہے۔ یہ غلطیاں بھی کوئی بڑی غلطیاں ہیں۔ ہر انسان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں۔
کاتبوں کی یہ غلطیاں قرآن مجید کے تحفظ میں کوئی فرق نہیں ڈالتا۔ کیونکہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے تحریری انداز میں نہیں اترا، بلکہ آواز کی شکل میں اترا ہے۔ آواز کی شکل کو تحریری شکل میں لا نے والا انسان ہی ہے۔ اس لئے حروفوں میں ایک دو غلطی پایا جاناانسانی فطرت ہے۔ اگر اس کو اللہ ہی لکھ دیا ہو تا تو کوئی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی۔
کاتبوں کی ان غلطیوں کے بارے میں 1200سال پہلے گزرے ہوئے ماہر لسان و عالم دین ابن خطیبہ، ابن خلدون، باقلانی، اصفحانی وغیرہ نے کہا ہے۔اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کاتبوں کی اس غلطی سے قرآن مجید کے تحفظ میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔ کیونکہ قرآن کریم آواز کی شکل میں نازل کیا گیا، تحریری شکل میں نہیں۔
اس لئے انسان کے ہاتھوں سرزد ہونے والی ان غلطیوں کو ہم نشاندہی کر نے سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن مجید حفاظت نہیں کی گئی ہے۔ قرآن مجید تو اس کے آواز کی شکل میں بالکل محفوظ ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
اسی لئے قرآن مجید تحفظ کے بارے میں آیت نمبر 29:49 میں کہتا ہے کہ عالموں کے دلوں میں یہ محفوظ ہے۔
غلطیوں کے باوجود حفظ کر نے والے اس کو صحیح طور پر یاد کیا۔ حفظ کے معاملے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ غلطی سے لکھے جانے کے باوجود پڑھتے وقت سارے مسلمان اس کو صحیح طور سے ہی پڑھتے ہیں۔
ان چھوٹی غلطیوں کو اسی طرح رہنے دینے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا اللہ ہی محافظ ہے۔
جس طرح لکھا گیا ہے اسی طرح پڑھنا اور اسی طرح اس کو حفظ کر نا انسانی فطرت ہے۔ قرآن لکھنے والے چند الفاظ غلطی سے لکھنے کی وجہ سے اسی طرح پڑھنا چاہئے تھا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان غلطیوں کو نظر انداز کر کے جس آواز میں قرآن نازل ہوا ہے اسی آواز کے تحت سارے مسلمان قرآن پڑھتے آ رہے ہیں۔
اسی لئے یہ اختلاف کے بغیر کہ ہر شہر کو ایک قرآن اور ہر زمانے کو ایک قرآن نہ ہوتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ساری دنیا میں ایک ہی قرآن کسی قسم کی تبدیلی کے بغیر چودہ سو سالوں سے بحفاظت پڑھا جارہا ہے۔
عربی حروف میں تبدیلیاں
قرآن کے بارے میں ایک اور بات جان لینی ضروری ہے کہ عربی حروف میں ہونے والی تبدیلیاں۔
قرآن مجید نازل ہوئے چودہ سو سال گزر گئے۔ چودہ سو سال جب گزرتی ہے تو ہر زبان اس کی نشانیوں میں سے چندچیزیں کھو دیتی ہیں۔ اس کے حروف، اس کی شکل اوربات چیت میں تبدیلی پیدا ہوجا تی ہیں۔ اس طرح تبدیلیاں پیدا ہونا ہر زبان میں ہو تا آرہا ہے۔
اس طرح کی تبدیلیاں عربی زبان میں بھی پیدا ہوئی۔ نبی کریمؐ کے زمانے میں لکھے گئے حروف اور حال میں دنیا بھر میں پائے جانے والے قرآنی حروف کے درمیان کئی تبدیلیاں موجود ہیں۔
اس وقت لکھے گئے اصل نسخہ کو اگر آج کے عربی جاننے والے کے پاس دکھاؤ تو ان سے وہ پڑھا نہیں جاسکتا۔ اس حد تک کئی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔
ان تبدیلیوں کی وجہ سے یہ نہ سمجھ لیناکہ قرآن کی محافظت میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید تحریری شکل میں نازل نہیں ہوا۔ آواز کی شکل میں نازل کیا گیا ہے۔
آخر تک قائم رہنے والی کتاب بنانے کے لئے ہی نبی کریمؐ نے اس کو تحریری شکل دی تھی۔
اللہ کی طرف سے نبی کریم ؐ پر قرآن مجیدآواز کی شکل ہی میں اتارا گیا۔ وہ آوازی شکل آج تک کسی تبدیلی کے بغیر چلا آرہا ہے۔
آج بھی میوزیم میں بحفاظت رکھے ہوئے اصل نسخہ کو لے کر کوئی پرانے حروف کو پڑھنے والے کے پاس دو تو ان کا پڑھنا اور آج شائع ہو نے والے قرآن کو پڑھنا دونوں ایک ہی آواز کے اور ایک ہی تلفظ کے ہوں گے۔ دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہوگا۔
اسی طرح عربی زبان کے حروف میں چاہے جتنا بھی تبدیلی ہو جائے قرآن کے تلفظ اور آواز میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ اسی لئے قرآن کی حفاظت میں کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔
اسی لئے اللہ فرماتاہے کہ قرآن نیک لوگوں کے دلوں میں حفاظت کیا گیاہے۔ (29:49)
چلئے دیکھیں کہ نبی کریم ؐ کے زمانے کے بعد عربی زبان میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔