سات قرأتیں
سات قرأت یا دس قرأت کے نام سے بہت سے لوگ قرآن سے کھیل رہے ہیں۔
اللہ ضمانت دیتا ہے کہ قرآن کو میں خود براہ راست حفاظت کروں گا۔ (دیکھئے: 15:9)
اگر کہے کہ اللہ کے کلام میں کوئی بھی اورکچھ بھی کر سکتے ہیں تو ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے۔ سات قرأت کے نام سے عالم دین کے بھیس میں یہ لوگ ظلم ڈھا رہے ہیں۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید سات قسم سے نازل کی گئی ہے۔
(دیکھئے: بخاری 2419، 3219، 4991، 4992، 5041، 7556)
اس کو گواہ بنا کر وہ سات قرأتوں کا دعوٰی کر رہے ہیں۔یہ دعوٰی غلط ہے۔ قرآن مجید کو اللہ نے حفاظت کر نے کاوعدہ کیا ہے۔ اس سے نا موافقت نہ ہونے کے لحاظ سے ہم اس کو سمجھ لیتا چاہئے۔
خوب پھیلی ہوئی کوئی بھی زبان ہوہر علاقے میں جدا جدا انداز ہی سے اس کا تلفظ ہوگا۔
لیکن لکھتے وقت سب ایک ہی طرح سے لکھیں گے۔
ترسٹھ کو ساٹھ پر تین کہنے والے بھی ہیں۔
مدرئی لکھ کر اس کو مردئی پڑھنے والے بھی ہیں۔
اسی طرح عربی زبان میں علاقائی طریقے بھی تھے۔
مکہ اور مدینہ کو اپنے احاطے میں لئے ہوئے حجاز علاقے کی عادت کے مطابق دوسرے حصوں میں رہنے والے اگر پڑھنا چاہیں تو اپنی عادت کے خلاف زبان کو پلٹناانہیں دشوار تھا۔ اسی لئے ان سات قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساتوں علاقوں کے طریقے کے مطابق پڑھ سکتے ہیں۔
ایک ہی قسم سے قرآن نازل ہوا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ میں نے جبرئیل سے پوچھاکرتا تھاکہ اور زیادہ بڑھاؤ تو انہوں نے سات تک بڑھا دیا۔ (دیکھئے: بخاری 4991)
نبی کریم ؐ نے وہ منظوری اس لئے حاصل کی کہ ان ساتوں علاقوں کے طریقے کے مطابق لوگوں کو کوئی دشواری پیش نہ آئے۔
ہر علاقے والے تلفظ میں اور پڑھنے کے طریقے میں اپنی عادت کے مطابق پڑھنے سے یہ نہ سمجھ لینا کہ قرآن مجیدکی حفاظت نہیں ہوئی۔
لیکن قرأت کے نام سے بعض علمائے دین جو مسخراپن کر رہے ہیں وہ قرآن مجید سے کھلواڑ کی طرح ہے۔
مثال کے طور پر آیت نمبر 2:198 میں’’ فضلا من ربکم‘‘ قرآن میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ’’فی مواسم الحج‘‘ ملا کر ابن عباس پڑھا کر تے تھے۔(دیکھئے: بخاری 2050، 2098)
اس خبر کو ہم کیسے سمجھیں؟ انسانی لحاظ سے کچھ بھول چوک کی وجہ سے ابن عباس نے اس طرح غلطی سے پڑھا ہو گا سمجھنے کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
اس کو بنیاد بنا کر ایک لفظ کے بدلے دوسرے لفظ کو ملا کر پڑھنا ، ایک جملے کے ساتھ دوسرے جملے کو بڑھا کرپڑھنا، کہتے ہیں کہ یہ سات قرأتوں میں جمع ہے، اس طرح وہ قرآن کے تحفظ کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔
اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ نبی کریم ؐ نے کہا ہو کہ اس طرح پڑھنا ان سات قرأتوں میں شامل ہے۔ اس کے باوجود وہ اسی طرح پڑھ رہے ہیں۔
قرآن مجید کو اس طرح پڑھنے والوں میں کہا جاتا ہے کہ سات اشخاص بہت اہمیت رکھتے ہیں۔وہ سات قاری اصحاب رسول میں سے نہیں ہیں۔ تابعین بھی نہیں۔ ان کے بعد آنے والوں میں سے ہیں۔ ان میں سے کوئی نبی کریم ؐکی قرأت نہیں سنا۔
یہ سنے بغیر کہ نبی کریم ؐ کس طرح پڑھے تھے، یہ لوگ خود جو تخلیق کئے ہیں ، وہ کس طرح قرآن ہوسکتا ہے؟ ایسی ایک معمولی چیز بھی انہیں کس طرح معلوم نہ ہوسکا، یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
سات قرأت کے نام سے یہ لوگ جو بے ترتیبی مچائی ہے اسی کی وجہ سے قرآن مجید کے خلاف سوالات اٹھ رہے ہیں۔ لوگ سوال اٹھارہے ہیں کہ اس طرح سات قسم کے قرآن رکھتے ہوئے تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ تحفظ کی ہوئی کتا ب ہے۔ اس لئے اس قرأت کے معاملے کو روکنا چاہئے۔