یہ اللہ کی کتاب ہے
قرآن مجید سے استفادہ حاصل کر نے سے پہلے اس کے بارے میں چند بنیادی باتیں معلوم کر لینا بہت ضروری ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ قرآن اللہ کے ذریعے نبی کریم ؐ پر نازل کیا گیا اور ان کے ذریعے لوگوں تک پہنچا ہے۔
قرآن مجید کھلے طور پر اعلان کر تا ہے کہ نبی کریم ؐ کی باتوں میں سے ایک لفظ بھی قرآن مجید میں جگہ نہیں پائی ہے۔
(قرآن کی ان آیتوں کو ملاحظہ کیجئے: 10:15، 10:37-38، 11:13، 11:35، 16:101-103، 69:44-46)
تاہم غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید محمد نبی کالکھا ہوا ہے۔وہ سراسر غلط ہے۔آگے آنے والی دلیلوں کی بنیاد پرغیر مسلم بھی یہ سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم محمد نبی کا قول نہیں ہے۔
اختلاف نہیں ہے
غیر مسلموں کے شک کی بنیاد یہی ہے کہ اس کو نبی کریم ؐ نے خود ہی تصور کرکے اللہ کی بات کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا ہوگا۔
قابل قبول اور مناسب وجوہات موجود ہیں کہ اس کو نبی کریم ؐ نے خود ہی بنا کرپیش نہیں کئے ہو ں گے۔
عام طور سے لوگوں کی باتوں میں اختلاف دکھائی دے گا۔ ایک یا دو دن تک بغیر کوئی اختلاف کے بہت ہی احتیاط کے ساتھ بات کر سکتے ہیں۔ لیکن عرصۂ دراز تک بغیر کسی اختلاف کے کوئی بھی بات نہیں کر سکتا۔
کتنے بڑے عالم بھی ہوں ان کی پانچ سالہ باتوں کو اگر تم غور سے دیکھو گے توتم پاؤگے کہ اکثر باتوں میں اس نے اختلافی باتیں کی ہیں۔
* پہلے جو بات کیا تھا اس کو بھول جانا۔
* پہلے جو غلطی سے سمجھاتھا ، اس کو بعد میں ٹھیک سے سمجھنا۔
* غم اور تکلیف کی وجہ سے کافی توجہ سے بات نہ کرنا۔
* جن سے بات کیا جاتا ہے ان کے دل کو برا نہ لگ جائے یا ان کی طرف سے کچھ اغراض حاصل کر نے کے لئے کچھ ٹیڑھا ہو کر بات کر نا۔
* بھاپے کی وجہ سے دماغی حالت میں فتور آجانا۔
* انجام اور تنگی سے ڈر کر دوہری شخصیت اختیار کر نا۔
اور اسی طرح کے کئی قسم کی کمزوریاں انسانوں کے پاس رہنے کی وجہ سے اختلاف کے بغیر بات کر نے والے کسی شخص کو تم دیکھ نہیں سکتے۔
لیکن قرآن کر یم کو نبی کریم ؐ نے 23 سال تک تھوڑا رتھوڑا سالوگوں کو سکھلایا۔ اگر وہ ان کا خاص قیاس ہو تا تو 23 سالہ باتوں میں کئی قسم کے اختلافات ان میں پایا جاتا۔ مگر قرآن مجید میں تو کسی قسم کا اختلاف ذرہ بھر بھی نہیں ہے۔
قرآن مجید مندرجہ بالا کسی بھی کمزوریوں سے پاک، الٰہی کی بات رہنے کی وجہ ہی سے وہ کسی طرح کے اختلافات کے بغیر ہوسکتا ہے۔
آیت نمبر 4:82 میں قرآن مجید نے انسانی نسل کوللکار تا ہے کہ اللہ کی طرف سے نازل ہو نے کی وجہ سے وہ اپنے اندر اختلاف نہیں رکھتا ۔
بہت ہی عمدہ خصوصیت
نبی کریم ؐ نے قرآن مجید کو اللہ کا پیغام کہہ کر تعارف کرایا۔ اگر وہ اللہ کا پیغام ہو تو وہ انسانوں کا پیغام سا نہیں ہوسکتا۔وہ ہر طریقے سے سب سے بڑھ کر مقرر ہو نا چاہئے۔
کیا قرآن مجید اس طرح مقرر ہو اہے تو عربی زبان جاننے والے غیر مسلم قرآن مجید کی اگر تحقیق کریں گے تو وہ اچھی طرح جان لیں گے کہ یہ تو انسان کی پہنچ سے دور بہت ہی اونچے مقام پر قائم ہے۔قرآن کریم گذشتہ چودہ صدیوں سے عربی زبان کی بہت ہی معززوبلند ادب مانا جاتا ہے۔
بڑے بڑے ادبیات میں جھوٹ اور مبالغہ آمیزتعریفیں ضرور حصہ پاتی ہیں۔ لیکن قرآن حکیم میں
* جھوٹ نہیں
* اختلاف نہیں
* فحش نہیں
* مبالغہ آمیز تعریفیں نہیں
* قیاس آرائیاں نہیں
* لغزش اورحیلہ حوالہ نہیں
* بادشاہوں اور سخیوں کو حد سے بڑھ کر تعریف کر نا نہیں
ادب کے لئے مرغوب ان تمام چیزوں کو سراسر ترک کردے کر صرف سچائی کو بالکل اعلیٰ ادبی ذوق کے ساتھ پیش کر نے والا قرآن اس زمانے کے ادبی فاضل لوگوں کو بہت ہی حیرت سے غور کر نے پر مجبور کر دیا۔ آج تک بھی وہ حیرت قائم ہے۔
اس انداز کا بلند پایہ ادبی حیثیت رکھنے والی ایک کتاب کو نبی کریمؐ تصنیف کرنا ہوتو وہ ایک بڑے پنڈت ہو نا چاہئے ، عربی زبان میں عبوریت حاصل ہونا چاہئے اور گذشتہ تمام ادبیات کو گھول کر پی جاناچاہئے تھا۔
لیکن یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ نبی کریم ؐ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ قرآن مجید کی آیتیں 29:48، 7:157,158، 62:2 کہتی ہیں کہ نبی کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا۔
(نبی کر یم ؐ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، کیا یہ بات ان کی قابلیت کو گھٹا سکتی ہے؟ اس کے بارے میں ہم حاشیہ نمبر 312 میں تفصیل کے ساتھ ذکرکئے ہیں۔ )
نبی کریم ؐ نہ عربی زبان کے پنڈت ہیں اور نہ ہی گذشتہ ادبوں کو پڑھ سکتے ہیں، اگر وہ اپنے قیاس سے لکھتے تو وہ جس حیثیت کا ہوگا ، قرآن کریم اس حیثیت کا نہیں ہے۔ اگر عربی زبان کے پنڈت قیاس کرتے تو وہ جس قسم کا ہوگاتو اس قسم کابھی قرآن نہیں ہے۔ بلکہ وہ تو بہت ہی بلند پایہ کی حیثیت رکھتاہے۔ اس لئے یہ اللہ ہی کا پیغام ہو سکتا ہے۔
ان پڑھوں کو بھی سمجھ میں آنے والا واحدادب
عام طور سے ایک کتاب میں جس انداز سے بلند پایہ کا ادب ہوگااسی انداز سے وہ عام لوگوں سے نامانوس ہوجائے گا۔
بہت بلند پایہ کے ادبیات کسی بھی زبان میں ہو اس زبان کے پنڈت ہی اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس زبان میں بات کر نے والے عام انسانوں کو وہ سمجھ میں نہیں آئے گا۔
اگر عام انسانوں کوایک کتاب سمجھ میں آجائے تو یقیناً اس کتاب میں بلند پایہ کے ادبی نکات نہیں ہوں گے۔
لیکن صرف عربی زبان بولنے والے انسان کوبھی قرآن مجید سمجھ میں آگیا۔ وہ پنڈتوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیا۔ عربی زبان کے ان گنت ادبی کتابیں آج کے اکثر عرب سمجھ نہیں سکیں گے۔ لیکن عربی زبان بولنے والا ہر شخص قرآن حکیم کو سمجھ لیتا ہے۔
آج بھی سہی، کوئی بھی انسان اس انداز کی ایک کتاب تصنیف ہی نہیں کر سکتا۔ کسی بھی انسان سے ناقابل تصنیف ایسی ایک کتاب کو لوگوں کے سامنے پیش کر کے نبی کریم ؐ نے دعوٰی کیاتھا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔
قرآن مجید محمد نبی کا قیاس آرائی نہیں ہے، اس کے لئے یہ بھی ایک دلیل ہے ۔
نغمئی خوبی کوئی بھی ادب ہو ، اس میں میٹھی آواز اور نغمئی خوبی اگر حاصل کر نا ہو تو اس کی حسن ترتیب اور باقاعدگی سلیقے سے شامل ہو نا چاہئے۔ اس طرح ہونے ہی کی وجہ سے اس میں ہم نغمئی خوبی محسوس کر سکتے ہیں۔
لیکن قرآن میں باضابطہ کیا ہوا کوئی مصرعہ نہیں ہے۔ بلکہ تحریری انداز ہی سے اس کی آیتیں تشکیل پائی ہیں۔
ان آیتوں میں بھی خاص کر ایک ہی انداز کے الفاظ جگہ نہیں پائی ہیں۔ بلکہ چند آیتوں میں پچاس سے بڑھ کر کلمے، چند آیتوں میں دس ہی کلمے اور چند آیتوں میں پانچ کلمے بھی ہوتے ہیں۔ایک ہی کلمے کی آیت بھی ہے۔
اس طرح تشکیل پائی ہوئی کسی بھی کتاب میں نغمئی خوبی بالکل نہیں ہوگی۔ لیکن جس میں انسان سے نغمئی خوبی لانا ناممکن ہو ، اس انداز میں بھی انسانی دلوں کو پرکشش بنانے والی نغمئی خوبی صرف قرآن حکیم ہی کو ہے۔
عربی زبان نہ جاننے والے بھی اس کی نغمئی خوبی کی طرف مائل ہوجا تے ہیں۔ نغمئی خوبی کے خلاف ایک طریقے کو اپنا کر اس میں نغمئی خوبی کو لے آنا ، ایک اور دلیل ہے کہ یہ محمد نبی کی قیاس آرائی نہیں ہے۔
زمانے سے یہ اختلاف نہیں
نبی کریم ؐ 570 ء میں پید اہوئے۔
اس زمانے میں لوگ علمی مہارت میں بہت ہی پیچھے رہ گئے تھے۔انہیں یہاں تک بھی علم نہیں تھا کہ دنیا گول ہے۔
اس زمانے میں رہنے والے کتنے بڑے عالم بھی ہوں اپنے زمانے کے علم سے آگے کچھ بھی کہہ نہیں سکتے تھے۔ تقریباً سو سال گذرنے کے بعد ان کی کتاب اگرپڑھی گئی تو اس میں موجود کئی غلطیوں کو دنیا جان لے گی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ سو سال گذرنے کے بعد کیا ہوگا، اور کیا کیا تحقیقات کی جائے گی ، ان تفصیلات کو سو سال پہلے بسنے والے قیاس بھی نہیں کر سکتے تھے۔
اگرکئی عالم مل کر تصنیف کی ہوئی کتاب بھی ہو توسو سال کے بعد اس میں کئی غلطیوں کو ہم دیکھ سکتے ہیں۔ بعض موقعوں پر پوری کتاب ہی زمانے سے بے میل ہو نے کی وجہ سے بے کار ثابت ہو سکتی ہے۔
لیکن لکھنے پڑھنے نہ جانتے ہوئے ، بالکل پسماندہ قوم میں بسنے والے ایک شخص نے جس کو اللہ کی کتاب کہا اس کتاب میں کسی طرح کی ایک غلطی آج تک بھی کوئی ثابت نہیں کر سکا۔
* قرآن مجید کے حد تک وہ صرف روحانیت کے متعلق ہی بات نہیں کرتا ، ہر شعبہ کے متعلق اس اس جگہ پر ذکر کرتاہے۔
زمین کے متعلق، دوسرے سیاروں کے متعلق اور آسمانی دنیا کے متعلق جب بات کیا جاتاہے تو اس زمانے کے بڑے سے بڑا عالم اور فلکیاتی ماہر اگر بات کر تے تو جس طرح ہوگا کہیں اس سے بھی زیادہ بہترین انداز سے قرآن حکیم بات کر تا ہے۔
* اسی طرح انسان کے متعلق، دوسرے جانداروں کے متعلق، جاندار پیدا ہونے کے ڈھنگ کے متعلق اور بھی کئی چیزوں کے متعلق قرآن مجید کہتا ہے۔ وہ چودہ صدی کے پہلے بسنے والے انسان کی طرح نہیں کہتا۔بلکہ اس صدی کے ماہر طبیب سے زیادہ بہتر انداز میں کہتا ہے۔
نباتات کے بارے میں بات ہو، پہاڑوں کے بارے میں بات ہو یا سمندروں کے بارے میں بات ہو تو چودہ صدیوں کے پہلے بسنے والے کی طرح قرآن مجیدکی بات نہیں ہوتی۔
* اتنا ہی نہیں بلکہ گذشتہ صدی کے پہلے تک جو تحقیقات نہیں ہوئی تھی ان تحقیقات کی کئی باتوں کو قرآن مجید اسی زمانے میں کہہ دیا تھا۔
(اللہ کی کتاب کے لئے دلیلیں، اس عنوان کے تحت ہم نے اس کو سمجھایا ہے۔)
* کئی شعبوں میں ماہر شخص جس طرح آج بات کر ے گااس سے زیادہ بہتر انداز میں قرآن مجیدکو بات کرتے دیکھتے ہوئے اور نبی کریم ؐ کے زمانے کی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی غور کر ے تو وہ یہی فیصلہ کر ے گا کہ یہ محمد نبی کا کلمہ نہیں ہو سکتابلکہ ہر چیز کے جاننے والے رب ہی کا یہ کلام ہو سکتا ہے۔
* سائنس سے تعلق رکھنے والے خیال ہی نہیں ، بلکہ قرآن مجید جوکہتا ہے ان سیاسی قانون،جرمیاتی قانون اور حقوقی قانون کو اگرکوئی تحقیق کر ے تو وہ جان لے گا کہ آج کے زمانے میں موجود سارے قانون سے زیادہ یہی قانون بہتر ہے اور نوع انسانی کے لئے زیادہ فائدہ مندہے۔غیر مسلم بھی قرآن کے اس قانون کو عمل در آمد کر نے کے لئے درخواست کر نے کے حد تک قرآنی قانون معیّن ہے۔
* کئی قانون، حسب و نسب اور پراناتجربہ ان سب کو تحقیق کرکے کئی قانون دان جو تشکیل دیتے ہیں اسی قانون کوسالانہ اصلاح کر تے آرہے ہیں۔ لیکن نبی کریم ؐ نے جس قانون کو اللہ کا قانون قرار دیا ہے، وہ بہت سے لوگوں کے ذریعے استقبال کیاجا رہا ہے۔ اس سے بھی یہ دلیل ثابت ہو تا ہے کہ قرآن مجید محمد نبی کا کلام نہیں ہو سکتا۔
* اسی طرح ناقابل تصفیہ دنیوی الجھنوں کوقرآن مجید حیرت انگیز طور پر مناسب طریقے سے فیصلہ کر تا ہے۔ اس سے بھی یہ دلیل ثابت ہو تا ہے کہ قرآن مجید محمد نبی کا کلام نہیں ہو سکتا۔
حسب و نسب، خاندان اور ذات پات سے جو چھوت کی کلنک چلی آرہی ہے ، وہ کئی ملکوں میں کئی سالوں سے فیصلہ نہ ہو نے والا مسئلہ ہے۔اس پیچیدہ مسئلہ کو بھی قرآن مجید بہت ہی آسان فیصلہ سناکر اس چھوت کی کلنک کو جڑ سے دفع کیاہے،اس کو بھی ایک مثال پیش کر سکتے ہیں۔
مستقبل میں واقع ہو نے والے کئی خبروں کوقرآن مجید نے ظاہر کیاہے۔ اسی مطابق کئی واقعے وقوع پذیر ہوئے ہیں۔لفظ بہ لفظ تکمیل کو پائے ہوئے ایسے پیشنگوئیاں بہت ہیں۔
(اللہ کی کتاب کے لئے دلیلیں، اس عنوان کے تحت ہم نے اس کو سمجھایا ہے۔)
قرآن مجیدمحمد نبی کا خاص کلام ہو ہی نہیں سکتا، یہ سب اس کے لئے دلیلیں ہیں۔
اگر تم یہ کہنے پر سچے ہو کہ لکھنے پڑھنے نہ جاننے والے ایک شخص نے اس کو قیاس کیا ہے تو قرآن کریم علانیہ چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسے ایک ہی سورت بنا کر لاؤ ۔ قرآن کی ان آیتوں کو ملاحظہ کیجئے: 2:23، 10:38، 11:13، 17:88، اور 52:34۔
اس چیلنج کو چودہ صدیوں سے کوئی بھی سامنا نہیں کیا۔ قرآن مجید 2:23 آیت میں قطعیت سے کہتا ہے کہ کوئی بھی اس کا سامنا نہیں کرسکتا۔
نبی کریم ؐ نے جس قرآن مجید کوتعارف کرایا تھا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، انہوں نے اس سے کئی گنا زیادہ بات کی ہے۔اپنے آپ کو اللہ کا رسول واقف کرانے بعد انہوں نے 23سال کے عرصے میں جو کچھ کہا تھا سب کچھ حفاظت سے رکھا گیا ہے۔
کوئی بھی لسانی ماہران کی باتوں کو اور قرآن مجید کو اگر تحقیق کر نے لگے تو وہ قطعی طور پر کہے گا کہ دونوں باتیں ایک ہی شخص کے ہو نہیں سکتے۔ دونوں کے درمیان ادبی لطافت اور انداز بیان میں بہت سا فرق دیکھے گا۔
محمد نبی کی حسب دستور باتوں سے الگ اور اس سے کئی گنا زیادہ بلندو بالاو لطافت سے بھر پوررہنے کی وجہ سے یہ پھر سے ثابت کر تا ہے کہ یہ اللہ ہی کی کتاب ہے ۔
یہ ماننے والے تحقیق کار کہ نبی کریم ؐ ایسا کہہ نہیں سکتے، کہتے ہیں کہ وہ یہودو نصار یٰ کی کتابوں سے سیکھ کر ایسا کہتے ہیں۔ آج بھی بعض عیسائی ایساہی کہتے ہیں۔
نبی کریم ؐ کے زمانے ہی میں قرآن حکیم کی معیار دیکھ کر حیرت سے تبصرہ کر تے تھے کہ ان کو کسی نے سکھایاہے۔
کیونکہ نبی کریم ؐ سے پہلے گزرے ہوئے آدم، نوح، موسیٰ، یعقوب، یوسف، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ جیسے مختلف رسولوں کے بارے ہیں یہودو نصار یٰ کی کتابیں ذکر کرتی ہیں۔اس لئے ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید بھی ان کے بارے میں بیان کرنے کی وجہ سے نبی کریم ؐ نے گزری ہوئی کتابوں کے ذریعے معلومات حاصل کر کے کہتے ہیں۔
کئی وجوہات سے یہ غلط ہے۔
مندرجہ بالا نیک لوگوں کے نام ہی قرآن کہتا ہے، لیکن یہودو نصار یٰ کی کتابوں کی طرح ان کے بارے نہیں کہتا۔
ان لوگوں کی کتابیں کہتی ہیں کہ مندرجہ بالا نیک لوگ شرابی، زناکاری اور دھوکہ بازی جیسے برے عادات اپنائے ہوئے تھے۔لیکن قرآن مجید ایسا نہیں کہتا۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ وہ لوگ بالکل پارسا گزرے تھے۔
ان کی زندگی میں ہمارے لئے جو عبرت کے قابل ہو صرف ایسے ہی واقعات کو قرآن مجیدبیان کر تاہے۔ وہ بھی دوسری کتابوں کے خلاف ہی وہ کہتا ہے۔
یہودو نصار یٰ کی کتابیں’’اِس نے اُس کو جنا، اُس نے اِس کو جنا‘‘جیسے خاندانی نسل کی فہرست پیش کر تا ہے، ویسی باتیں قرآن میں نہیں ہے۔
جب حقیقت یہ ہے تو نبی کریم ؐ نے گزری ہوئی کتابوں سے نقل کی ہے کہنا، بے سمجھی کی بات ہے۔
یہودو نصار یٰ کی کتابوں میں زیادہ تر تاریخ اور بہت کم انداز میں تعلیمات حصہ پائی ہیں۔ زندگی کی تمام مسئلوں کے لئے ان کتابوں میں کوئی رہنمائی دکھائی نہیں دیتی۔
لیکن لوگ عبرت حاصل کر نے کے لئے قرآن مجید نے صرف چند ضروری تاریخی نکات پیش کی ہے۔ اور انسان کو پیش آنے والے ہر مسئلے کے لئے مناسب فیصلہ بھی سناتا ہے۔ یہ تمام باتیں یہودو نصاریٰ کی کتابوں میں ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس لئے ان کتابوں سے قرآن مجید نے نقل کیا ہے کہنا سراسر بے بنیاد الزام ہے۔
دوسری قوم کے لوگوں کی طرح یہودو نصاریٰ بھی نبی کریم ؐ کے زمانے میں زیادہ تعداد میں نبی کریمؐ کو اللہ کا رسول ماناتھا۔ یہ بھی غور کر نے کی بات ہے کہ اپنی کتابوں سے نقل کر کے کہنے والے کو وہ لوگ اپنا رہنما قبول نہیں کئے ہوں گے۔
(اس کے بارے میں اور زیادہ معلومات کے لئے حاشیہ نمبر 227 ملاحظہ فرائیے۔)
اس لئے اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید اللہ کی طرف سے نبی کریم ؐ پر نازل شدہ پیغام ہے اور نبی کریم ؐ نے اپنے آپ اس کو تخلیق نہیں کیا۔
کوئی توقعات نہیں
اگر فرض کر لیں کہ نبی کریم ؐ نے قرآن مجید کو خود قیاس کیا ہے تو اللہ کا نام استعمال کر کے قیاس کرنے کی وجہ سے یقیناً کوئی توقع ہو نا چاہئے۔
خود ہی قیاس کر کے اس کو اللہ کا کلام کہنے کے ذریعے انہوں نے کیا فائدہ حاصل کیا ، اس پر ہمیں غور کر نا چاہئے۔
عام طور سے ایک عقیدے کو پیش کر کے نفع حاصل کرنے کا ارادہ رکھنے والے اسی کے مطابق ہی عقیدے کی ترکیب د یں گے۔ اپنی دولت کوکھونے کے لائق کوئی عقیدہ نہیں بنائیں گے۔
نبی کریم ؐ نے جو عقیدہ لائے تھے وہ کیسا تھا؟ اس زمانے میں جو کچھ برائیاں تھیں انہیں وہ سختی سے منع کیا۔وہ ایسا عقیدہ تھا کہ مجھے اور کسی شخص کو اور کسی چیز کو معبود نہ بنائے۔ان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اس دنیا میں آرام کی زندگی بسر کر نے کا تصور چھوڑ کر مر نے کے بعد کی زندگی میں کامیاب پا نا ہی ایک مقصد ہونا چاہئے۔
اگر اس عقیدے کو کہا جائے تو دولت اکٹھا نہیں کر سکتے اور دوسروں کی طرح آسائشی زندگی بسر نہیں کر سکتے۔ الٰہی کے برابر توقیر بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ اس بات کی سند ہے کہ ان کی لائی ہوئی کتاب اور عقیدہ فائدے کے لحاظ سے ان کا بنایا ہوا نہیں ہے۔
نبی کریم ؐ اپنی پچیسویں عمر میں تاجر تھے اور چالیسویں عمر میں اس بستی ہی میں بڑے مالدار تسلیم کئے گئے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس عمر ہی میں انہیں اللہ کی طرف سے پیغام پہنچا۔ اس سے ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ انہیں اس کے ذریعے دولت اینٹھنے کا مقصدکچھ بھی نہیں ہو سکتا تھا۔
جو ان کے پاس تھی کیا اس دولت کو اور بھی بڑھالینا مقصد تھا تو وہ بھی نہیں تھا۔
کیونکہ انہیں اپنے ہی بستی سے ، اپنی تمام دولت کو چھوڑ کر بھاگنے کی نوبت آگئی تھی۔ اگر وہ اپنے کو اللہ کا رسول نہ کہتے اور اپنی تبلیغ سے بھی باز آجاتے تو بستی سے بھگائے جانے سے وہ بچ جاتے۔
اس قوم نے ان سے یہی مطالبہ کر رہی تھی۔ تاہم سب کچھ چھوڑ کر خالی ہاتھ بستی سے نکل گئے۔
اس سے ہم جان سکتے ہیں کہ کئی سالوں سے محنت و مشقت سے جمع کی ہوئی تمام دولت اپنے عقیدے کی خاطر کھونے کی ہمت رکھنے والے کو اپنی معاشی حالت بڑھا لینے کا مقصد نہیں ہوسکتاتھا۔
دولت اکٹھا کر نے کے لئے اللہ کا نام تصور کر نے والے، اپنے خود کی دولت کو کھونے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔
بستی سے بھگائے جا نے کے بعد مدینہ میں انہوں نے ایک حکومت نافذکی۔اگر نبی کریم ؐ چاہتے تو معاشی حالت کو اپنی مرضی کے مطابق بہت کچھ بڑھا سکتے تھے۔ کیونکہ ان کی حکومت بہت ہی زیادہ ترو تازہ تھا۔
* اس موقع پر بھی انہوں نے دولت اکٹھا نہیں کی۔
* محل میں زندگی بسر نہیں کی۔
* آخر تک کٹیا ہی میں جی کر کٹیا ہی میں جان دی۔
* وہ اور ان کے گھر والے ہر روز پیٹ بھر کر نہیں کھایا۔
* ایک ماہ کے انداز میں گھر میں چولھا نہیں جلا، بلکہ کھجور اور پانی پی کر زندگی بسر کی۔
نبی کریم ؐ نے چھوٹے چھوٹے دو چادر ہی کواوپری اور نچلی لباس کی طرح استعمال کرتے تھے۔ کچھ مخصوص دنوں میں پہننے کے لئے سلے ہوئے لباس ایک دو اپنے پاس رکھتے تھے۔
* زندگی بھر ان کے گھر میں چراغ ہی نہیں رہا۔اندھیرے میں ہی وہ رات کا وقت گذارتے تھے۔
* اپنی زرہ پوش کوانہوں نے تھوڑا سا گیہوں کے لئے رہن رکھ کر آخر کار اس کو چھڑائے بغیر ہی وفات پا گئے۔
* صرف ایک زمین، ایک گھوڑا اور چند بکریاں ہی انہوں نے چھوڑ کر گئے تھے۔ اس کے لئے بھی یہ وصیت فرما گئے تھے کہ اس کو حکومت کے خزانے میں جمع کر دیا جائے اور ان کے گھر والے کوئی اس کے وارث نہ بنے۔
نبی کریم ؐ کی اس پاکیزہ سیرت کو جاننے والے یہ ہر گز نہیں سمجھیں گے کہ نبی کریم ؐ نے دولت جمع کر نے کے لئے ہی اللہ کے نام سے قرآن کو قیاس کیا ۔
اگر یہ سمجھے کہ لوگوں کے پاس تعریف اور عزت حاصل کر نے کیلئے ہی انہوں نے اللہ کا نام استعمال کیا ہوگا، وہ بھی غلط ہوگا۔
کیونکہ اگر کوئی قرآن کریم کو پوری طرح سے پڑھ لے تو بس، اس کا وہ شک دور ہو جائے گا۔
تعریف کادلدادہ کوئی شخص اپنی عزت اور وقار کو گزند پہنچانے والے لفظوں کو اللہ کے نام سے قیاس نہیں کر ے گا۔ بلکہ اپنی تعریف اس طرح بڑھا چڑھا کر کہنے ہی کا وہ قیاس کر ے گا کہ لوگ اس کے پیروں میں پڑے رہے۔لیکن قرآن مجید میں نبی کریم ؐ کی غلطیوں کو دکھلایا گیا ہے۔
یہ قرآنی آیتیں کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ بھی اللہ کے بندے ہی ہیں: 2:23، 8:41، 17:1، 18:1، 25:1، 53:10، 57:9، 72:19، 96:10۔
قرآن کی آیتیں6:50 اور 7:188 کہتی ہیں کہ اللہ کی قدرت میں کوئی بھی چیز نبی کریم ؐ کی نہیں ہیں۔
قرآن کی یہ آیتیں 3:127، 6:50، 7:188، 10:49، 10:107 کہتی ہیں کہ اللہ کے خزانے نبی کریم ؐ کے پاس نہیں ہیں۔
قرآن کی یہ آیتیں 6:17، 7:188 کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ اپنے پربھی بھلائی نہیں پہنچا سکتے۔
قرآن کی یہ آیت 23:97 کہتی ہے کہ نبی کریم ؐ بھی شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کر یں۔
قرآن کی یہ آیتیں 4:106، 9:43،23:118، 48:2 کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ کو بھی اللہ بچائے تو ہی ہوگا۔
اللہ اگرنبی کریم ؐ کو سزا دینا چاہے توکوئی انہیں بچا نہیں سکتا۔یہ قرآن کی آیتیں 6:17، 67:28 کہتی ہیں۔
قرآن کی یہ آیتیں 2:264، 3:8، 6:35، 6:52، 10:99، 17:74، 28:56 کہتی ہیں کہ سیدھی راہ پر شامل کرنا نبی کریمؐ کے اختیار میں نہیں۔
یہ قرآنی آیتیں 3:128، 4:80 کہتی ہیں کہ نبی کریمؐ کو رب کے اختیار میں کو ئی حصہ نہیں ہے۔
قرآنی آیت 17:74 کہتی ہے کہ نبی کریم ؐ کا دل بھی اللہ ہی کی پابندی میں ہے۔
قرآن کی یہ آیتیں 3:144، 11;12، 18:110، 4:116 کہتی ہیں کہ نبی کریم ؐ بھی ایک انسان ہیں۔
ان باتوں کو لوگوں سے واضح طور پر بیان کر نے کے لئے قرآن مجید نبی کریم ؐ کو حکم دیتی ہے۔
تم مجھ سے نہ ڈرتے ہوئے انسانوں سے کیوں ڈرتے ہو کہہ کرنبی کریم ؐ کو ڈانٹنے والی آیت (33:37) بھی قرآن حکیم میں موجود ہے۔
ایک نابینا شخص کو جب نبی کریمؐ نے ڈانٹا تواس نابینا شخص کو پتہ نہ ہونے کی حالت میں اللہ نے جو ڈانٹا وہ آیتیں (80:1-10) بھی قرآن میں موجود ہے۔
ہم جیسے معمولی شخص بھی لوگوں کے درمیان اپنی عزت میں کوتاہی ہونا برداشت نہیں کر سکتا۔ نبی کریم ؐ تو اپنی ڈانٹ کو برداشت کرتے ہوئے اپنی عزت کو پامال کر نے والی آیتوں کوپیش کر کے کہا ہے کہ یہ اللہ کا کلام کھا ہے۔
نبی کریم ؐ اگر یہ کہتے کہ میں ہی الہ ہوں تو اس کو قبول کر نے کی حد تک ان کو چاہنے والے لوگ بہت تھے۔ اس کے باوجود نبی کریم ؐ اپنے کو دوسروں کی طرح بشر ہی اعلان کیا۔
نبی کریم ؐ نے جس قرآن کوپیش کیااسی میں یہ تمام معلومات دکھائی دیتا ہے کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔
اپنے کو سرزنش کر نے والے،اپنی عزت کو زک پہنچانے والے پیغام کو اپنے ہی خلاف کوئی تصور نہیں کر سکتا۔ اگر اس پر غور کرو تویہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتاہے کہ یہ قرآن نبی کریم ؐ کی قیاس ہر گز نہیں ہو سکتی۔
* انہیں کوئی پالکی نہیں تھی۔
* ان کے لئے کوئی محافظ نہیں تھا۔
* وہ کسی کو اجازت نہیں دئے کہ وہ ان کے پیروں پر گرے۔
* ان کیلئے کوئی کھڑے ہونے کو انہوں نے روک دیا تھا۔
* انہوں نے تاکید کی تھی کہ جس طرح لوگ عیسیٰ کی تعریف کئے تھے اس طرح حد سے زیادہ میری تعریف نہ کرو۔
بالکل عام انسان جس طرح تعریف کا منتظر رہتا ہے اس حد تک بھی انہوں نے تعریف پسند نہیں کی۔
اس لئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ لوگوں کے پاس عزت و احترام حاصل کر نے کے لئے وہ خود ہی قیاس آرائیوں سے نہیں کہا ہوگا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔
اس لئے اگران تمام چیزوں پر غور کیا جائے تو ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قرآن مجید محمد نبی کے ذریعے تشکیل نہیں کیا گیااور ان کے دعوے کے مطابق یہ اللہ ہی کا کلام ہے۔