تیس پارے
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ بعد میں آنے والوں نے سہولت کے لئے تقسیم کی ہے۔ اس طرح تقسیم کر نے کے لئے نہ اللہ نے فرمایا نہ رسول نے کہا۔ عثمانؓ کے اصل نسخہ میں بھی وہ تقسیم پائی نہیں گئی ہے۔
قرآن مجید کی سورتوں کی حد تک تمام سورتیں یکساں نہیں ہیں۔ بعض سورتیں 286آیتوں والے ہیں اور بعض سورتیں تین ہی آیتوں والے بھی ہیں۔
ایسی حالت میں بعض لوگ یہ سمجھ کر قرآن مجید کو تیس پاروں میں اس لئے تقسیم کیا کہ مہینے میں ایک بار ہی سہی مسلمان قرآن مجید کو پڑھ کر ختم کریں۔
نبی کریم ؐ نے کبھی ایساحکم نہیں دیا کہ قرآن مجید کو تیس دن میں مساوی طور پرختم کر نا ہے ۔ اصحاب رسول بھی کبھی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا۔
جب تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا تو سمجھداری کے طریقے کو بھی انہوں نے استعمال نہیں کیا۔ قرآن مجید کے جملہ لفظوں کو گن کر اس کو تیس سے تقسیم کر کے اس کے تحت تیس پارہ بنادیا۔ اس کے ذریعے معانی میں فرق بھی آجائے تو انہوں نے اس کا فکر نہیں کیا۔
ایک مکمل سورت کو بھی انہوں نے تین ٹکڑے کر ڈالے۔ مثال کے طور پر سورۃ بقرہ اٹھالیجئے۔ ایک سورت کا آدھا پہلے حصے میں اور دوسرا آدھا دوسرے حصے میں بانٹا گیا ہے۔
مثال کے طور پر مسلمان اچھی طرح جا نے ہوئے سورۃ ےٰس کو اٹھالیجئے۔تم دیکھ سکتے ہو کہ اس میں سے 21آیتوں تک بائیسویں پارے میں اور 22آیتوں سے آخر تک تےئیسویں پارے میں جمع کیاگیا ہے۔
اسی طرح پانچویں پارے کی پہلی آیت ،’’ تمہاری لونڈیوں کے سوا شوہر والی عورتیں بھی‘‘سے شروع ہوتی ہے۔ اس آیت کو اس طرح شروع کر نے سے کچھ معنی نہیں دے گا۔ کیونکہ یہ پہلی آیت سے منسلک ہے۔ اس آیت میں اپنے مائیں، اپنی بیٹیاں، اپنی بہنیں جیسی ایک فہرست دے کر کہا گیا ہے کہ ان سے شادی مت کرو۔ اس سلسلے کی کڑی ہی’’ اپنی لونڈیوں کے سوا والی ‘‘آیت ہے۔
ان دونوں آیتوں میں ایک کو چوتھے پارے میں اور دوسرے کو پانچویں پارے میں بانٹ کر بے معنی کر دیا گیا ہے۔
اس آیت کو پڑھنے سے کچھ معنی سمجھ میں نہیں آئے گا۔ پہلی آیت سے دوسری آیت کو ملانے ہی سے معانی سمجھ میں آسکتا ہے۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو تیس پاروں میں تقسیم کر نے والے لفظوں ہی کی گنتی پر توجہ کی تھی پر اسکے معانی پر غور نہیں کیا۔
ایک سورت کی صرف ایک ہی آیت کو ایک پارے میں اور باقی کے تمام دوسرے پارے میں جمع کئے ہیں۔ مثال کے طور پر پندرہویں سورہ۔ صرف اس کی پہلی آیت ہی کو تیرویں پارے میں جمع کئے ہیں، باقی کے تمام چودہوں پارے میں درج کئے ہیں۔
ایسا ایک خیال پیدا کر دیا گیا ہے کہ اس طرح اللہ ہی نے قرآن کو تیس پاروں میں تقسیم کیا ہے۔
اس کے بعد آنے والے نسل بھی اس خیال سے اس کو قبول فرمالیا کہ ہر روزقرآن کریم کو ایک مخصوص مقدار سے پڑھنا آسان ہوگا۔
سب لوگوں کو یہ معلوم کر لینا چاہئے کہ ہم ہی نے ہماری آسانی کے لئے اس کو تقسیم کی ہے۔
غور طلب بات ہے کہ آج تک حفاظت سے جو رکھا گیا ہے اس اصل نسخہ میں قرآن کریم تیس حصوں میں تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔
اور یہ بھی ہمارے دین میں کوئی زبر دستی کی بات نہیں ہے کہ ہر ماہ ایک بار قرآن مجید پڑھ کر ختم کر نا ہی چاہئے۔ دین کا فرمان ہے کہ ان ان کی سہولت کے مطابق پڑھا جائے۔
(دیکھئے: قرآن کی آیت 73:20)
اس لئے اس کو تیس پاروں میں تقسیم کرنا دینی لحاظ سے کوئی انصاف نہیں ہے۔
صرف تیس پاروں میں ہی تقسیم نہیں کیا گیابلکہ ہر پارے کو چار چوتھائی حصہ بنایا گیاہے۔ اس کے لئے پہلی چوتھائی حصہ پر الربع (ایک چوتھائی) ، دوسری چوتھائی حصہ پر (النصف(دو چوتھائی) اور تیسری چوتھائی پر (الثلٰث) نشانی کے طور پرہر پارے کے کنارے پر لکھاجا تا ہے۔
اس کو بھی جان لینا ضروری ہے کہ یہ بھی بعد کے زمانے کا انتظام ہے۔
قرآن مجید میں ہر پارے کو برابری کا آٹھ حصہ بنا کر ہر حصہ کو صومن(آٹھ میں سے ایک) درج کر نا قریبی زمانے کا رواج ہے۔