پڑھنے سے پہلے

قرآن پڑھتے وقت تم دیکھوتو یہ دوسری کتابوں سے کئی طریوں سے مختلف نظر آئے گا۔

تم دیکھوگے کہ قرآن میں چند احکام بار بار دوہرایا گیاہے۔ کیا ایک بات ایک بار کہنا کافی نہیں ہے؟ ایک ہی بات کو بار بار کیوں کہا گیا ہے؟ ایسے سوالات تم میں اٹھ سکتے ہیں۔

یہ قرآن 23سالوں کے عرصے میں مختلف حالات کی مناسبت سے اللہ کی کہی ہوئی نصیحتوں کا مجموعہ ہے۔ اس طرح کی نصیحتوں کا مجموعہ ایسے ہی ہوتاہے۔

اسے ایک مثال کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں۔

اچھے اخلاق والا اور ایک دانشمند باپ اپنی اولاد کو مختلف موقعوں پر نصیحت کر تا ہے۔ اس طرح وہ دس سالوں میں جو نصیحت کیا تھا اگر ہم اسے اکھٹا کریں تو وہ کیسا رہے گا؟

* انہوں نے پہلی سال جو نصیحت کی تھی ان میں سے بعض دوسری سال بھی کہے ہوں گے۔

* ایک ہی نصیحت وہ سات آٹھ بار کہے ہوں گے۔

* بعض نصیحت وہ ایک ہی بار کہے ہوں گے۔

خبر کی اہمیت سمجھ کر اس کو بار بار کہے ہوں گے۔ یا بیٹا اسے سن کر ٹھیک طور سے عمل نہیں کیا ہوگا، اس لئے وہ پھر سے کہے ہوں گے۔

اس طرح قرآن 23 سالوں میں کہی ہوئی نصیحتوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے قرآن میں بھی کئی باتیں ایک سے زیادہ بار کہی گئیں ہیں۔

کوئی بھی کتاب ہو اس کو عنوان کی ترتیب سے اس کے عنوان کے تحت عنوان کے مناسب خبریں درج ہوئی ہوگی۔ لیکن تم قرآن کو دیکھوگے تو عنوان کے طور پر اس میں خبریں ترتیب نہیں کی گئی ہیں۔بعض لوگوں کو یہ حیرت معلوم ہوگی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن تحریری انداز میں نازل نہیں کیا گیا۔بلکہ تقریری انداز میں نازل ہو کر پھراس کو تحریری شکل دیا گیاہے۔

کتاب لکھنے میں ا ور باتوں کو تحریر بنانے میں بہت بڑا فرق ہے۔ ایک انسان کی کئی سالوں کی باتوں کو تحریری شکل بناؤ تو وہ عنوان کے تحت نہیں آسکتی۔

لکھتے وقت ہم آگے پیچھے کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے کا موقع مل جانے کی وجہ سے اس کو عنوان کے تحت لا سکتے ہیں۔ لیکن بات کرتے وقت ویسا نہیں کر سکتے۔ موقع اور حالات ہی فیصلہ کرتا ہے کہ ہم کب اور کیسے باتیں کریں۔

اسے بھی ایک مثال کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں۔

باپ نے بیٹے کو دس سال کے عرصے میں دئے ہوئے نصیحتوں کو جمع کر کے دیکھیں تو وہ کسی عنوان کے تحت بھی ترتیب وار کہی ہوئی بات نہیں ہوگی۔

* پہلے دن بیٹے کو غصہ میں دیکھ کر صبر کے بارے میں بات کرے گا۔

* دوسرے دن اگربیٹے کو امتحان ہوگا تو پڑھنے کی اہمیت کے بارے میں بات کر ے گا۔

* تیسرے دن بیٹا اگر ٹھیک سے نہیں کھایا ہو گا تو کھانے کے بارے میں بات کرے گا۔

* اس کے بعد کے دن بیٹا جب اپنے ماں سے مخالف کر تا ہے تو اس کے بارے میں نصیحت کرے گا۔ یہ نصیحتیں کسی بھی عنوان کے تحت ترتیب وار کہا نہیں ہوگا۔ باپ اپنے بیٹے کو ایسا نہیں کہتا کہ پہلے ایک عنوان کی باتیں کہدیں اور پھر دوسرے عنوان کولے لیں۔ بیٹے کو جتنی بات کہنی ہے اتنی ہی کہناان کا منصوبہ ہوگا۔

بیٹے کو جھوٹ کہتے ہوئے دیکھتا ہے تو باپ ایسا نہیں سوچے گا کہ سیاست کے عنوان پر ہم مشغول رہنے سے جھوٹ کے بارے میں بات کرنا مناسب نہ ہوگا۔

اسی طرح نبی کریم ؐ کی زندگی میں کوئی بھی مسئلہ اٹھے تو اس کے فیصلہ کو اللہ نے فوراً نازل کردیا۔ اس طرح قرآن 23 سال کے عرصہ میں کہی ہوئی باتوں کا مجموعہ ہے، اس لئے یہ عنوان کے تحت نہیں ہو سکتا۔

قرآن میں چند آیتیں ایک عمل کی اجازت دیتے ہوئے اور چند آیتیں اس کو روکتے ہوئے تم دیکھوگے۔

اس کو تم اختلاف نہ سمجھنا۔ اگر ایک ہی وقت میں کہی ہوئی باتوں میں وہ بات ہو تو تم اس کو اختلاف کہہ سکتے ہو۔ لیکن قرآن تو 23 سال کے عرصہ میں ماحول کے مطابق اتارا گیا ہے۔ ایک موقع پر ایک چیز کی اجازت دیدی ، پھر دوسرے موقع پر اس کو اگر روک دیا گیا تو وہ اختلاف نظر آئے گا، لیکن اصل میں وہ اختلاف نہیں ہے۔

پہلے جو قانون اترا وہ تبدیل ہو کر پھر دوسرا ایک قانون لاگو ہوجائے تو وہ اختلاف نہیں کہلائے گا۔

اسے بھی ہم ایک مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔

ایک چار سال کا بچہ ہے، اس کو اس کا باپ گھر سے باہر نہ جانے کی تاکید کر تا ہے۔ وہی لڑکا جب پندرہ سال کا ہو جا تا ہے توباپ کہے گا کہ تم بھی دوسرے لڑکوں کی طرح باہر جا کر کیوں نہیں کھیلتے! پہلے جو کہا گیا تھا اس سے یہ مختلف رہنے کے باوجود دونوں ہی باتیں حالات کے مدنظر کہی جانے کی وجہ سے اس کو اختلاف نہیں کہہ سکتے۔

اسی طرح قرآن بھی مختلف حالات میں اتاری ہوئی نصیحت رہنے کی وجہ سے دو مختلف حالات میں کہی ہوئی دو مختلف نصیحتیں اختلافی نظر آسکتی ہیں۔ اس کو تم اس طرح سمجھ لینا چاہئے کہ پہلے جو قانون نازل ہوا تھا وہ بعد میں اتاری ہوئی آیت کے ذریعے تبدیل کیا گیا ہے۔ ایسے مقامات پر ہم نے اس کے مناسب حاشیہ میں تشریح کئے ہیں۔

ہر چیز کا جاننے والا اللہ پہلے جو قانون اتارا تھا اس کو بدلے بغیر ہی ابتدا ہی میں ٹھیک قانون کیوں نہیں اتارا، اس شک کی اگر تم وضاحت چاہو تو ’’چند آیتیں کیوں بدلی گئیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت حاشیہ نمبر 30 میں دیکھ لیں۔

قرآن میں ’’وہ لوگ‘‘ کہہ کر غائب کے بارے میں باتیں کر تے ہوئے فوراً ’’تم لوگ‘‘ میں مخاطب انداز سے بدل جا تا ہے۔اس طرح مخاطب سے غائب اور غائب سے مخاطب بدلتے رہنا قرآن میں بہت سی جگہوں میں دکھائی دے گا۔

تحریر میں ہم اس طرح زیادہ نہیں دیکھ سکتے۔لیکن گفتگو میں یہ انداز زیاد ہ پایا جاتا ہے۔

کسی بھی صدر کا بیان تم غور سے سن کر دیکھو۔ وہ یہی کہے گا کہ ان کی حکومت ٹھیک نہیں، دھوکہ بازی بڑھ گئی ہے۔ تم کو عہدے سے نکالنا ہی میرا پہلا کام ہو گا۔’ ان کی حکومت ‘کہہ کر غائبانہ مخاطب کر نے والا اچانک’تم کو ‘ کہہ کر رخ بدل دیتا ہے۔

’اس کو‘ کہنا اور’ تم کو‘ کہنا ایک ہی شخص کے بارے میں رہنے کے باوجود باتوں میں اس طرح تبدیل ہوجانا دنیا کی ہر زبان میں چلا آرہا ہے۔

یہ صرف منچ کے بیان ہی میں نہیں۔ گھر میں ایک شخص اپنے گھر والوں سے بات کرتے وقت بھی اس طریقے کو تم دیکھ سکتے ہو۔

ایک شخص کی طرف مخاطب ہوکر’ تم کو غروری بہت زیادہ ہوگئی ہے‘ کہتے ہوئے اچانک وہ اس طرح کہہ اٹھتے ہیں کہ ’ اس کو گھر سے باہر کر نے کے بعد ہی سکون ملے گا‘۔اس طرح مخاطب سے غائب کی طرف تبدیل ہو جا نا عام طور سے دیکھا جاسکتا ہے۔

قرآن مجید تحریری انداز میں نہیں اتارا گیا۔ لوگوں کی طرف مخاطبی انداز میں آوازکی شکل ہی میں اتارا گیا ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں بھی اس جیسا انداز ہی بہت زیادہ دیکھا جا سکتا ہے۔

مثال کے طور پر قرآن کی پہلی سورت کی چار آیتوں پر غور کرو:

سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔(وہی) سارے جہاں کو (پیدا کر کے) پرورش کر نے والا ہے۔ (2) بہت ہی مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے۔ (3) فیصلے کے دن کا مالک ہے۔(4) اس لئے ہم تیری ہی عبادت کر تے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔

اس میں پہلی تین آیتیں اللہ کے بارے میں غیبی انداز میں مخاطب کیا گیا ہے۔ یعنی ’وہ‘ کہتے ہوئے اچانک چوتھی آیت میں ’تم‘ سے مخاطبی انداز میں بدل جاتا ہے۔

ایسے مقام میں جو ادبی لطافت چھپی ہوئی ہے ، اس کو ادبی مشتاق حضرات جان لیتے ہیں۔

اللہ کے بارے میں نہ جانے ہوئے لوگوں کے پاس جب تعارف کیا جا تا ہے کہ (وہ) سارے جہاں کا پالنے والا ہے تو اللہ کے بارے میں تھوڑا بہت وضاحت مل جا تی ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ وہ بہت ہی مہربان ہے تو اور زیادہ واضح ہو جا تا ہے۔ جب کہا جاتا ہے کہ وہ نہایت ہی رحم والا ہے تو اور بھی زیادہ عیاں ہو جا تا ہے۔ جب اس کو فیصلے کے دن کا مالک کہا جا تا ہے تو ہمیں پوری طریقے سے واضح ہو جا تا ہے کہ اللہ کیسا ہے۔ تب اس کو ’تو‘ سے مخاطب ہونے کے حدتک قربت حاصل ہوجا تی ہے۔

اسی لئے پہلی تین آیتوں میں وہ کہتے ہو ئے آکر چوتھی آیت میں تم سے تخاطب کا انداز بدل جاتا ہے۔ہم اچھی طرح جان سکتے ہیں کہ ایسے ہی وجوہات اس میں شامل ہیں ۔

قرآن مجید میں اللہ اپنے بارے میں خود آگاہی کر تے وقت بہت ہی کم مقامات میں وہ ’’میں‘‘ کہا ہے۔ اکثر جگہوں میں وہ ’’ہم‘‘ ہی کہا ہے۔

اپنے بارے میں تنہا شخص بھی’’ ہم‘‘ کہنے کا رواج دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی موجود ہے۔

یہ میرا گھر ہے کہنے کے مقام پر ہم کہتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھیں گے کہ اس گھرمیں ہمارا بھی حصہ ہے۔

اپنے لڑکے کو جب کسی سے تعارف کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ ہمارا لڑکا ہے۔ اس کو کوئی براہ راست معنی میں نہیں کہتے اور نہ ہی کوئی سمجھتے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ’ہم‘ ’ہمیں‘ ’ہمارے پاس‘ وغیرہ الفاظ ’’میں‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔